Jind Novel by Zaid Zulfiqar Episode 01



ناول جِند 
تحریر زید ذوالفقار 
قسط نمبر 01
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر "
مسجد کے اونچے میناروں سے خدا کے خلیفہ کی صدا بلند ہوئی تھی۔ وہ ایک اقرار تھا کہ ہاں میں مانتا ہوں کہ سب سے اکبر تو بس میرا رب ہی ہے۔ وہ ایک اعلان تھا ان سب کے لئیے جو اپنی اپنی ذات میں اکبر بنے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
نہیں تم نہیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ تم تو جھوٹ کو مفروضہ مانے ہوۓ ہو۔۔۔۔۔ میں بتاؤں سچ کیا ہے ؟؟؟؟
" اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر "
اس نے مؤذن کی پکار کا زیرِ لب جواب دیا تھا۔ وہ تشہد کے سے انداز میں جاۓ نماز پہ ہی بیٹھا ہوا تھا۔
سفید کرتا شلوار۔۔۔۔۔ کہنی تک مڑے ہوۓ بازو۔۔۔ سر پہ جالی دار سیاہ ٹوپی۔۔۔
یہ اسکا معمول تھا۔ او ٹی ( آپریشن تھیٹر ) والے دن وہ تہجد میں ضرور اٹھتا تھا۔ چاہے دو رکعت ہی پڑھتا لیکن پڑھتا ضرور تھا۔ یہ عادت پہلی سرجری سے ہی بنی ہوئی تھی۔ اسکا ماننا تھا کہ انہی رکعات کی برکت سے اسکے ہاتھوں میں شفا اترتی تھی۔
اذان کے بعد دعا پڑھنے کے بعد اس نے چہرے پہ ہاتھ پھیرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کمرے سے باہر نکلا تو باورچی خانے سے نکل کر ملازمہ آئی تھی
" تم اتنی جلدی آگئیں ؟؟؟؟ "
" آپکا او ٹی ہے ناں صاحب جی، میں نے سوچا ناشتہ جلدی بنا دوں "
اس نے اثبات میں سر ہلایا
" صاحب جی سکرب ( آپریشن تھیٹر کا لباس ) کونسا استری کروں ؟؟؟ "
اس نے پوچھا تھا۔
" کوئی سا بھی کردو۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے پاس ہیں کون کون سے۔۔۔۔۔۔  "
" کالا ہے، نیلا ہے، ایک آسمانی ہے۔۔۔ وہ تو جی مجھے بڑا بھیڑا لگتا ہے۔۔۔۔ کالا والا کردیتی ہوں۔۔۔۔ "
وہ ہنس پڑا
" تم عورتیں اور تمہاری یہ کلر سکیمیں۔۔۔ میچنگ ہار بندے بھی نکال دینا اور میک اپ کا سامان بھی۔۔۔۔ "
اس نے ہنس کر کہا تو وہ جھینپ گئی تھی۔ وہ کہہ کر نماز کے لئیے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے وہ سیاہ سوٹ اٹھایا اور ساتھ لگا کر شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بیڈ پہ بیٹھی عینی نے برا سا منہ بنایا تھا
" ہاۓ فاطمہ ناں۔۔۔۔ کالا نا پہن۔۔۔ میری دادی کہتی ہیں منحوس رنگ ہوتا ہے یہ "
" لیکن مجھے تو یہ سب رنگوں میں اچھا لگتا ہے "
" لگتا ہوگا لیکن آج نا پہن ناں۔ میں کوئی بدشگونی نہیں کرنا چاہتی لیکن۔۔۔۔ توبہ میرے منہ میں خاک تو ریجیکٹ ہوگئی تو ؟؟؟؟ "
اس نے کندھے اچکا دئیے
" ہوگئی تو ہوگئ۔۔۔ کونسا زندگی میں پہلی بار ہوں گی۔۔۔۔ ایک بار پھر سہی۔۔۔۔ "
" یعنی اپنی ہی کرنی ہے تو نے۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی۔ اب وہ اس کے لئیے جوتا دیکھ رہی تھی۔
" کالا سینڈل ہوگا تیرے پاس ؟؟؟؟ "
" میں یہاں سیریس بات کر رہی ہوں اور تجھے سینڈل کی لگی پڑی ہے ؟؟؟؟؟؟؟ "
عینی نے غصے سے اسے دیکھا تھا
" ریجیکٹ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے عینی۔ مجھے پتہ ہے میرا ریکارڈ اچھا نہیں ہے "
" ریجیکٹ ہوگئی تو واپس بلوا لی جاۓ گی۔ جانا چاہتی ہے واپس راجن پور ؟؟؟؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گئی تھی۔
" میں بس ایک بات جانتی ہوں عینی۔ یہ نحوست بدشگونی، یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے اندر کا شر ہوتا ہے جو خیر کا راستہ روک لیتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ "
وہ استہزاء سے ہنسی تھی
" اور ایسی بات ہے بھی تو مجھے دیکھ کر چیخیں مارتی ہوئی بھاگ جاۓ گی تیری یہ بدشگونی۔۔۔۔ میری دادی کہتی ہیں نحوست کا دوسرا نام ہوں میں۔۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی
" اب بتا۔۔۔۔ کالا سینڈل ہے ؟؟؟؟؟؟ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ واش اپ ( آپریشن سے پہلے تیار ہونا ) ہو کر آیا تو وارڈ بوائز ابھی سٹریچر سیدھے کر رہے تھے۔ اس نے وہاں موجود پی جی کو آنکھیں دکھائیں
" یہ کیا بات ہوئی یار آج پھر لیٹ ہیں۔ ؟؟؟ "
" سر جی وہ آۓ ہی لیٹ ہیں سامان لیکر۔ میں نے تو کہا تھا ان سے کہ ڈاکٹر بلال ناراض ہوتے ہیں انکی سرجری تیار رکھا کرو ٹھیک نو بجے "
" ناراض ہونا بنتا ہے کہ نہیں بنتا ؟؟؟ "
اس نے برا سا منہ بنایا تھا
" دس منٹ اور مجھے یہاں پیشنٹ چاہئیے ورنہ یہ بھی میں خود کر لوں گا "
وہ ویٹنگ روم میں آیا۔ اسکے کولیگ ڈاکٹر چاۓ پی رہے تھے۔
" لگتا ہے بارش ہونے والی ہے آج پھر۔ بادل بہت گرج رہے ہیں "
اسے شرارت سے دیکھا گیا تھا
" ابھی گرجے کہاں ہیں۔۔۔ اور سر جی ہم گرجنے والوں میں سے نہیں ہیں، برسنے والوں میں سے ہیں۔۔۔۔ "
وہ وہیں بیٹھ گیا تھا
" اج کتنی کر رہے ہیں ؟؟؟ "
" تین "
" سر جی خدا کا خوف کریں۔ کچھ ہمیں بھی کرنے دیا کریں۔ ہمارے لئیے کچھ بچتا نہیں ہے بس وہی اپینڈیکٹمی ( اپینڈکس نکالنے کا آپریشن ) کر کر کے تھک گیا ہوں میں "
وہ ہنسا تھا
" اللّٰہ دیتا ہے بندہ لیتا ہے۔۔۔۔۔ "
" بندہ کسی اور کو بھی دیدے۔۔۔۔۔۔ "
" غفور۔۔۔۔۔ پیشنٹ پہنچا کیا ؟؟؟؟؟ "
اس نے چلا کر پوچھا تھا۔
" جی سر۔۔۔۔ "
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
" ابھی سے جا رہے ؟؟؟؟؟؟ ابھی تو انستھیزیا ہے۔ پھر جنرل ہیں۔ یہ تو نرسوں کے کام ہیں یار "
اس نے اسے بغور دیکھا تھا
" پھر تم کہتے ہو ہمیں کیا ملتا ہے۔۔۔۔۔ "
وہ مسکرایا تھا
" اس پیشنٹ کے بینڈ پہ میرا نام درج ہے۔ ڈاکٹر بلال ظفر سرجری کریں گے۔ تو میں اسے حلال کیوں نا کروں ؟؟؟؟ یہاں بیٹھ کر چسکیاں لیتا رہوں اور کسی چیف گیسٹ کی طرح بس فیتہ کاٹنے پہنچ جاؤں ؟؟؟؟؟ نہیں میرے بھائی۔۔۔۔۔ "
وہ نکل آیا تھا۔
سب اسکے طریقہ کار سے واقف تھے لیکن بس۔۔۔۔ ہمیں خارش ہوتی رہتی ہے ناں زبان پہ۔۔۔۔ 
وہ او ٹی پہنچ گیا تھا۔ پیشنٹ کو لٹایا جا چکا تھا۔ 
" السلام علیکم۔۔۔ کیسی ہیں اماں جی۔۔۔۔ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ کوئی مسئلہ مسائل تو نہیں ہے۔۔۔۔ "
وہ پیشنٹ سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے کرتے سب کچھ سیٹ کروا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کل چھ لڑکیاں اور چار لڑکے تھے جو ریزیڈنسی ( ڈاکٹروں کا ایک رینک ) کے انٹرویو لئیے آۓ ہوۓ تھے۔ انہیں انتظار کرنے کے لئیے کہا گیا تھا
" آج او ٹی ہے تو تقریباً بارہ بجے فری ہوں گے سر۔ تب تک آپ ویٹ کریں "
وہ وہیں کوریڈور میں ٹہلنے لگی تھی۔ 
وہ لڑکے لڑکیاں آپس میں ہنس بول رہے تھے، باتیں کر رہے تھے، ملک شیک اور سینڈوچ وغیرہ کھاتے ہوۓ۔۔۔ وہ انہیں بہت دیر تک دیکھتی رہی تھی۔
وہ ان کے درمیان کوئی خلائی مخلوق جیسی تھی۔
وہ کانفیڈنٹ۔۔۔ خود مختار۔۔۔۔ آزاد۔۔۔۔ اچھے گریڈز۔۔۔۔ اس سے زیادہ اچھی شکلیں۔۔۔۔ 
وہ یقیناً لسٹ کا آخری نام ہونیوالی تھی۔
" مجھے آنا ہی نہیں چاہئیے تھا۔۔۔ کونسا معرکہ مار لوں گی میں۔۔۔۔ ایویں وقت ضائع کیا۔۔۔۔۔ "
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی
" ابو کو کہہ دیتی کہ سلیکٹ نہیں ہوئی۔۔۔۔ ویسے بھی کونسا ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ "
اس نے کوفت سے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" سلائن کھولیں۔۔۔۔۔ "
اسسٹنٹ سسٹر کی آواز گونجی تھی۔ ہیلپر نے جلدی سے ٹرے میں بوتل کھولی تھی۔ خون میں لال سپونج کے ٹرے میں آتے ہی سارا پانی لال ہوتا چلا گیا تھا۔
" آپ گن لینا سپونج پورے ہیں۔۔۔۔ ورنہ کل کو ہر نیوز چینل ہمیں بتاۓ گا کہ ہمارا پانچواں سپونج کدھر رہ گیا  تھا "
اس نے ہنس کر کہا تھا۔
وہ اووری کے کینسر کی مریضہ تھی۔ اس نے وہ تھیلی عیلحدہ کی اور باہر نکالی تھی۔
" آرٹری فور سیپس دیں "
سامنے مونیٹر پہ پیشنٹ کے وائٹل ( دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر وغیرہ ) چل رہے تھے۔ ٹِک ٹِک کی آواز سارے میں گونج رہی تھی۔ اس نے خون میں تر بتر سپونج نکالا اور آخری دفعہ دیکھا۔
" ٹھیک ہے۔۔۔۔ "
اسسٹنٹ نے ہاں میں ہاں ملائی
" اسٹچز کا سامان منگوا لیں ؟؟؟؟؟ "
" ٹانکیں بھی آپ خود لگائیں گے ؟؟؟؟؟ "
" کیوں مجھے یہ سلائی کڑھائی نہیں آتی تو اسکا مطلب مجھے ٹانکے لگانا بھی نہیں آتا ؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گیا۔
" ڈاکٹر احمد یہ ایک ذمہ داری ہے ناں۔ میں نے خود سے کہا کہ میں کروں گا یہ آپریشن تو شروع سے آخر تک مجھے ہی کرنا ہے۔ شائد میں خود غرض ہو رہا ہوں کہ کسی کو سیکھنے نہیں دے رہا لیکن میں یہ اس نیت سے نہیں کر رہا کہ کوئی سیکھے نہیں۔ یہ میرا کام ہے اور مجھے کرنا ہے۔ شروع میں سکن سٹیریلائز کرنے سے آخری ٹانکے تک۔۔۔ یہ میرا کام ہے۔۔۔۔"
وہ فور سیپس سے دھاگے کا سرا پکڑے مہارت سے سیتا جا رہا تھا۔
" کیا سمجھے ؟؟؟؟؟ "
" یہی کہ سب آپ کو جو کہتے ہیں وہ صحیح ہی کہتے ہیں۔۔۔۔ "
وہ زور سے ہنسا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی او ٹی میں ہی تھا جب اسکا فون بجنے لگا تھا۔ وارڈ بوائے نے سکرین اسکے سامنے کی۔ 
" سنیں گے سر ؟؟؟؟ "
" ہاں۔ آن کر کے سپیکر پہ ڈالو "
اس نے خون سے لتھڑے سپونج ٹرے میں ڈالے تھے
" السلام علیکم والدہ۔۔۔۔ کیسی ہیں "
" وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ تو کیسا ہے میری جِند۔۔۔ میرا پتر ؟؟؟؟ "
" آپکی دعا ہے۔۔۔۔۔ "
اس نے ڈایا تھرمی سے وہ آرگن کاٹنا شروع کیا تھا۔ گوشت کے جلنے کی بو سارے میں بھرنے لگی تھی۔
" تو آۓ گا اس ہفتے ؟؟؟؟ بات پکی کرنی ہے انیلا کی۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گیا تھا
" تو چھوٹا بھائی ہے، تیرا اتنا کرتی ہے وہ۔۔۔۔ انکار نا کرنا۔۔۔۔۔ "
" والدہ میں نے کچھ کہا تھا شائد "
" اوہ پرانی باتیں چولہے میں ڈال۔۔۔۔ چھڈ دے۔۔۔۔۔ بس تو نے آنا ہے۔۔۔ تیرے ہیڈ کا فون نمبر ہے میرے پاس یاد رکھنا۔۔۔۔ ماں کی ٹال دے گا افسر کی کیسے ٹالے گا "
وہ زور سے ہنسا اور مڑ کر دیکھا۔ انصاری صاحب اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
" خود سے آۓ گا کہ کروں فون ؟؟؟؟؟ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" نہیں ابو جی۔۔۔۔ ابھی تو انتظار میں ہی ہیں۔۔۔ ایچ او ڈی ابھی او ٹی میں ہیں۔۔۔ وہ فارغ ہوں گے تو انٹرویو ہوگا "
" اللّٰہ خیر کرسی۔۔۔۔ رب میڈی دھی کُوں بوہتا بوہتا دیوے۔۔۔۔۔ "
اس نے لمبی سانس بھری تھی۔
" تو نے پریشان نہیں ہونا۔۔۔ میں بات کروں گا سب سے۔۔۔ وہ نہیں بھی مانے تو تجھے فکر کرنے کی لوڑ نہیں ہے۔ تیرا باپ تجھے اجازت دے رہا ہے تو بس یہ کافی ہے۔۔۔ "
" یہ بہادری غلط انسان پہ ضائع کر رہے ہیں ابو جی۔۔۔۔ "
وہ کہنا نہیں چاہتی تھی لیکن خود کو کہنے سے روک نا سکی
" یہ سٹینڈ تب لئیے ہوتے تو میری ماں زندہ ہوتی۔۔۔۔ "
دوسری طرف خاموشی چھا گئی تھی۔ اسکے دل کو کچھ ہوا تھا۔ 
وہ بھی تو عجیب سی حالت میں تھی کہ باپ کو ایذا دیتی تھی اور پھر اس کے رونے سے پہلے خود رو پڑتی تھی۔
" رب میڈی دھی کو آسانیاں دیوے۔۔۔۔ "
وہی دعا۔۔۔۔۔ بار بار۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بیزاری سے وہ لسٹ دیکھی تھی جو ابھی اسے پہنچائی گئی تھی۔
" سر انصاری کہہ رہے ہیں تیار ہوجائیں۔ انٹرویو لینے ہیں۔۔۔ وہ صبح سے آۓ بیٹھے ہیں باہر "
" یار۔۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوتے ایسے کام۔۔۔ یار سر کو کہو کوئی سرجری ہے تو میں کروا دیتا ہوں۔۔۔۔ "
وہ ہنس پڑا
" ویسے ڈاکٹر بلال ایچ او ڈی ( ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ) آپکو ہونا چاہئیے۔۔۔ ماشاءاللہ آپ اتنے قابل ہیں، اتنے ذہین ہیں، گریڈز بھی اتنے اچھے ہیں۔۔۔ یہ اچھا نہیں کیا انہوں نے انصاری صاحب کو یہ سیٹ دیکر۔۔۔ حق مارا ہے آپکا۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
انسان کو ناشکرا کرنے میں ایک بڑا ہاتھ معاشرے کا ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر کے لوگوں کی باتیں۔ ہمیں لوگ بتاتے ہیں کہ ہم کیسے کیسے محروم رکھے گۓ ہیں۔ وہ وہ باتیں جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ اب وہ انگلیوں پہ گن سکتا تھا کہ کہاں کہاں کون کون اسکا حق مار رہا ہے کہ اسے ایک ایک بندہ روز کئی بار بتاتا تھا۔ اسے جو نہیں ملا وہ سب کو ازبر تھا، جو مل گیا تھا اسکی کوئی گنتی نہیں تھی
" ایک بات سنو بچے۔۔۔۔ نصیب سے زیادہ اور وقت سے پہلے کی خواہش بیوقوف کرتے ہیں اور میں۔۔۔۔ میں کم از کم بیوقوف نہیں ہوں۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔ "
وہ سر جھکا کر رہ گیا
" سر کو کہو میں آرہا ہوں دس منٹ میں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آئیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔ "
وہ کانفرنس روم میں داخل ہوا تو انصاری صاحب نے مسکرا کر کہا تھا۔
" آپکی والدہ ماجدہ کا فون آ چکا ہے۔ ہدایات دی گئی ہیں کہ ویک اینڈ پہ آپکا ہسپتال میں داخلہ بند کردیا جاۓ اور کسی طرح ممکن ہو تو زبردستی آپکو گاڑی میں بٹھا کر آپکے گاؤں بھجوا دیا جاۓ "
وہ ہنس پڑا۔
" آپ باس ہیں۔ کہہ دیتے کہ بی بی تم جانو اور تمہارا لڑکا "
" اللّٰہ توبہ۔۔۔ وہ ایسی بڑی شخصیت۔۔۔ میری کیا اوقات انکے سامنے۔۔۔۔ "
وہ زرا سنجیدہ ہوۓ
" چلے جانا بلال۔۔۔ تمہاری بہن کا معاملہ ہے "
اس نے لمبی سانس بھری تھی
" یہ بہنیں ہی تو میرے پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔۔۔۔ نا خود آزاد ہوتی ہیں۔۔۔ نا کسی کو آزادی کی تگ و دو کرنے دیتی ہیں۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ تھے۔
" خیر۔۔۔ بلوالیں سر۔۔۔۔ گھر بھی جانا ہے۔۔۔۔ "
انہوں نے بیل پہ ہاتھ مارا تھا
" نیکسٹ۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نے دیکھا وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس تھی۔ اس پہ سیاہ شال جس پہ سنہری پھول بنے ہوۓ تھے، سلیقے سے لئیے وہ اندر آئی تھی۔
" فاطمہ قیوم کھوسہ "
" بیٹھئے "
وہ چادر سنبھالتی آ بیٹھی تھی۔
وہ عام سی لڑکی تھی۔ 
قدرے گندمی سی رنگت تھی۔۔۔۔ عام سی سیاہ آنکھیں۔۔۔ متناسب سے نقوش۔۔۔۔ 
وہ بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا۔ 
" آپ یہ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟؟ "
انصاری صاحب ہی اس سے سوال پوچھ رہے تھے۔ اسکے لہجے میں سرائیکی زبان کا رنگ تھا۔ مادری زبان تو لہجے میں جھلکتی ہی ہے۔ اسکی کچھ باتیں تو اسے ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آئی تھیں۔ وہ حد سے زیادہ کنفیوز ہو رہی تھی۔ بار بار انگلیاں مڑوڑتی تھی۔
" ڈاکٹر بلال۔۔۔۔۔ "
اس نے پہلا سوال پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی تھی۔
" میسٹیکٹمی کی کنٹرا انڈیکیشنز کیا ہوں گی ؟؟؟ "
دوسرے سوال پہ بھی وہ انگلیاں چٹخاتی رہی تھی۔
" کچھ سوچرز تو بتائیں نیچرل۔۔۔۔ "
وہ دوسرے ہی نام پہ اٹک گئی تھی۔
بلال کو شدت سے تہمینہ یاد آئی تھی۔ وہ آواز بازگشت بن کر گونجنے لگی تھی
" میرے سے نہیں ہو گا۔۔۔۔ بلال نہیں۔۔۔۔ میری بہت بے عزتی ہوگی۔۔۔۔۔۔ "
اس کا دل اپنی تال سے اترنے لگا تھا
" تم کوشش تو کرو۔۔۔۔ تم ضرور سلیکٹ ہو گی۔۔۔ "
" اور کوئی سوال ؟؟؟ "
انصاری صاحب کی آواز پہ وہ چونکا۔ اسے دیکھا اور پھر انہیں۔۔۔
" نہیں تھینک یو۔۔۔۔ "
" اوکے مس فاطمہ۔۔۔ تھینک یو۔۔۔۔ "
وہ اسکی طرف گھوم گۓ۔
" تو ؟؟؟؟ "
" فائنل کریں۔۔۔۔ "
انہوں نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو
" ڈاکٹر بلال ؟؟؟ اپ نے ابھی کیا کہا ؟؟؟؟ "
" سر میری طرف سے کلئیر ہیں۔ فائنل کردیں اسے بھی "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ تھے۔
" وہ لڑکی جسے سوچرز کے نام بھی نہیں آرہے میں اسے ریزیڈینسی کے لئیے سلیکٹ کروں ؟؟؟؟ "
" جی۔۔۔ نیکسٹ بلائیں "
" بلال وہ یہ ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔۔ "
" اج تک کتنی بھرتیاں ہم ڈیزرونگ لوگوں کی کرتے آۓ ہیں ؟؟؟؟؟ "
" اسکے ہاتھوں میں کل کو کسی کی زندگی ہوگی۔ اسے کچھ آتا نہیں ہے "
" تو ہم اسے سکھائیں گے ناں "
وہ چپ رہ گۓ
" سر ہم بارہ سیٹوں کے لئیے انٹرویو کر رہے ہیں اور کل کینڈیڈٹس بارہ بھی نہیں ہیں۔ اسے رلھ کر ہم کسی کا حق نہیں ماریں گے۔ وہ سیٹ جو جانے کب تک فارغ رہے گی وہ کسی کو مل جاۓ گی۔ "
" میں تمہارے فیصلے میں تمہارے ساتھ شامل نہیں "
" سر ! کتنی بار آپ نے میری بات مان کر بعد میں سوچا ہے کہ کاش یہ نا کیا ہوتا ؟؟؟؟؟ "
وہ ایک بار پھر چپ رہ گۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے وہ لسٹ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
" آپ سب کو مبارک ہو۔۔۔ اپ ہم سب کے ساتھ کام کرنے جا رہے ہیں تو آپکو خوش آمدید اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ سفر اچھا رہے گا۔ بیسٹ وشز "
فاروق انصاری کہہ کر جا چکے تھے اور وہ ابھی تک بے یقین تھی۔
تو وہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر اپنے سیاہ لباس پہ ڈالی تھی۔ جیسا انٹرویو وہ دیکر آئی تھی، اسکے بعد اسکا سلیکٹ ہونا معجزہ ہی تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر کے لئیے نکلنے کو تھا جب کوریڈور میں نوٹس بورڈ کے پاس لڑکیوں میں اسے وہ بھی نظر آئ تھی۔
" فاطمہ قیوم کھوسہ "
اس نے بے اختیار اپنی سکرب کی شرٹ ٹھیک کی تو چونک پڑا۔ وہ بھی تو سیاہ لباس میں ہی تھا۔
تو یہ قدرت کا اشارہ تھا ؟؟؟؟؟ 
وہ مسکرا دیا تھا۔
" خیر ہو سرجن صاحب۔۔۔ اتنے نجومی کب سے ہوگۓ آپ ؟؟؟؟؟ "
اس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ وہ پاس سے گزرا اور ان سب کو مبارکباد دی تھی۔ وہ اسے دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔ وہ تو بس لسٹ میں اپنے نام کو گھورتی جا رہی تھی۔
وہ سٹاف روم میں آیا اور رجسٹر میں دستخط کر رہا تھا جب مہران اندر آیا
" میں نے سنا تو نے پھر سے کتے کی طرح رال ٹپکائ ہے ؟؟؟؟؟؟؟ "
اسکی گردن کی نسیں تن گئی تھیں۔
" چہ چہ۔۔۔ کتنی بری بات ہے۔۔۔۔ بیچاری وہ تو بچی ہے۔۔۔۔ ایسے ایسے بھی ہوتے ہیں نفس کے مارے لوگ۔۔۔۔ "
" بکواس خود سے بند کردے گا یا میں کرواؤں ؟؟؟ "
وہ ہنسا تھا
" تو کیا کروا سکتا ہے مجھے پتہ ہے۔۔۔ اور میں کیا کروا سکتا ہوں یہ شائد تجھے پتہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ ابھی کے ابھی اس لڑکی کو باہر نکلوا سکتا ہوں میں۔۔۔۔ غور سے دیکھ۔۔۔۔ تیرے سے اونچا نہیں تو تیرے سے نیچا بھی نہیں ہوں۔۔۔۔ "
" گو ٹو ہیل "
وہ کہہ کر مڑنے کو تھا۔
" ہر لڑکی پہ دل آ جاتا ہے ناں تیرا۔۔۔۔۔ کیوں  کہاں کب کیسے دیکھے بغیر بس آ جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہے ناں ؟؟؟؟؟  "
اس نے مڑ کر دیکھا۔ وہ اسے غصے اور نفرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ایسی سیاہ تھی کہ سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی۔ کسیلا دھواں حلق سے سیدھا پھیپھڑوں تک جاتا تھا اور سانسیں اندر ہی گھٹ جاتی تھیں۔
وہ ہاتھ جوڑے انکے کے سامنے کھڑا تھا۔
" بھائی نہیں۔۔۔۔ پلیز بھائی۔۔۔۔ آپکو اللہ کا واسطہ ہے۔۔۔۔ پلیز۔۔۔ "
" ہٹ جا سامنے سے۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں ہٹ۔۔۔۔ "
" نہیں۔۔۔۔ اسکی کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔ "
کسی نے اسے کھینچا تھا۔ اسکی اوٹ میں چھپی وہ نشانے پہ آ چکی تھی۔
" بھائی نہیں۔۔۔۔ "
گولی چل چکی تھی۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔۔ چار۔۔۔۔ سات۔۔۔
خون۔۔۔۔ چیخیں۔۔۔۔ اندھیرا۔۔۔۔ وحشت۔۔۔ کسی کے رونے کی آواز۔۔۔۔۔
بلال لمبی سانس لیکر اٹھ بیٹھا تھا۔
خواب اور حقیقت کے درمیان کی وہ نازک سی ڈور ٹوٹ گئی تھی۔
اسکا سارا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ سانس دھونکنی کے جیسے چل رہی تھی۔ سناٹے میں اسکے دل کی دھڑکن دور تک گونج رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک بستر پہ بیٹھا، سر جھکاۓ ہانپتا رہا تھا۔ وہ حقیقت تھی جو خواب جیسی تھی۔ وہ خواب تھا جو حقیقت بھی تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے اپنی داہنی ٹانگ سے پائنچہ اوپر کیا تھا۔ ٹخنے سے زرا اوپر تک وہ سرجری کا نشان تھا۔
ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔ چار۔۔۔۔ سات۔۔۔۔
سات ٹانکے۔۔۔۔۔
اس نے بے بسی سے ان پہ ہاتھ پھیرا تھا۔
" مجھے۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردینا تہمینہ۔۔۔۔۔ "
اس نے کرب سے سرگوشی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے


Post a Comment

0 Comments