Online Urdu Novel Talab e Ishq by Iqra Sheikh Second Marriage Based and Rude Hero Based Urdu Novel Downloadable in Free Pdf format and Online Reading Novel Posted on Novel Bank.
حورین جو اسکی شدتوں کو سہ کر تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی صبح اپنے اوپر بوجھ کو محسوس کر کے اسکی آنکھ کھلی تھی
اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا مصطفیٰ اسے مکمل اپنے حصار میں لئے بڑے آرام سے اسکے سینے پہ سر رکھے سو رہا تھا
نیند میں بھی اسکی پکڑ حورین پر مضبوط تھی شاید اسے نیند میں بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ اسکو چھوڑ کر نہ چلی جائے
حورین کتنے ہی لمحے بس اسکو دیکھتی رہی جو اس وقت سوتے ہوئے کسی معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا
اسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ مصطفیٰ ان دونوں کے درمیاں رشتے کی نئی شروعات کر چکا ہے بلکہ اسے سے اپنی محبت کا اعتراف بھی کر چکا ہے
وہ چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ لئے بہت محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتی ہوئی اپنی سوچوں میں گم تھی اس بات سے بےخبر کہ مصطفیٰ کی نظریں اسی کے چہرے پر جمی ہوئی تھی
اگر تم اسی طرح میرے بالوں میں ہاتھ چلاتی رہی نہ تو مجھے رات والا مصطفیٰ بننے میں دیر نہیں لگے گی
اسکی خمار آلودہ آواز حورین کے سماعت سے ٹکرائی تو اس نے بےسختہ نظر اٹھا کر مصطفیٰ کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں بے پناہ تپیش لئے اسے ہی دیکھ رہا تھا مصطفیٰ کے بالوں میں چلتا اسکا ہاتھ یکدم رک سا گیا تھا دھڑکنے یکدم سے تیز ہوئی تھی
ویسے مجھے لگتا ہے تمھیں رات کی طرح اب بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔۔ ہے نہ
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا تھوڑا سا اوپر ہوا تھا اس وقت اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی کچھ نیند کا خمار تھا کچھ حورین کی قربت کا
جبکہ اسکی بات اور اسکے خطرناک ارادے جان کر حور نے گھبرا کر اسے اپنے ہاتھوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی مگر بےسود مصطفیٰ اسکی دونوں کلائی کو تھام کر اسکے چہرے پہ جھک گیا تھا
دونوں کے چہرے کے درمیاں کا فاصلہ انچ بھر کا تھا رات کی طرح حور اسکی قربت سے گھبرا رہی تھی
اس نے اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کی تو وہ اسکے چہرے پہ جھک کر باری باری اسکے گال چومنے لگا
اسکے لمس میں اتنی شدّت تھی کہ حور بوگھلا گئی تھی
تمہاری یہ بوگھلاہٹ گھبراہٹ مجھے مزید گستاخی کرنے پر اکسا رہی ہے
وہ اسکے کان کی طرف جھک کر خمار بھری سرگوشی کرنے لگا اور اسکی کان کی لؤ کو اپنے دانتوں میں لیکر ہلکا سا دبایا تھا
اسکے اس علم پر حورین نے اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر یہ تو رات کی طرح صحیح معنوں میں اسکو مارنے کی قدار پہ تھی
مصطفیٰ حورین کی دل کی دھڑکنوں کو اچھے سے محسوس کر سکتا تھا اسکی خود کی دھڑکنے بھی معمول سے زیادہ دھڑک رہی تھی
وہ حورین کی پھولی ہوئی سانسوں کی حدت اپنے ہونٹوں پہ کسی نرم گرم ہوا کی صورت میں محسوس کر رہا تھا
اسکی لرزجتی پلکیں کپکپاتے گلابی لب شرم سے سرخ پڑتا چہرہ اسے پھر سے گستاخی کرنے پہ آمادہ کر رہا تھا
تمہاری یہ شرم اور گھبراہٹ مجھے میرا حق لینے سے روک نہیں سکتی
وہ خمار آلودہ نگاہوں سے اسکی انکھوں میں جھاکتے ہوئے اسکے لبوں پر اپنی دہکتے لب رکھ چکا تھا
مکمل اسکی قربت کے نشے میں چور وہ آہستہ آہستہ اسکی سانسوں کی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا
ایک ہاتھ سے حورین کے چہرے کو تھامے دوسرے ہاتھ سے اسکی کمر پہ اپنی گرفت سخت کرتا وہ مکمل اسکے وجود کو اپنے حصار میں لے چکا تھا
حورین کو لگ ریا تھا وہ رات کی طرح اسکی ہونٹوں کو آزادی نہیں دیگا مگر شاید اسے اس پر رحم آ گیا تھا وہ اسے سے جدا ہوتا حورین کے ایک ایک نقش پر اپنا لمس چھوڑنے لگا
حورین کا سانس سینے میں ہی کہیں اٹک سا گیا تھا جب مصطفیٰ کے ہونٹوں کا لمس اسے اپنے سینے پر محسوس ہوا
مصطفیٰ
وہ اپنی بےترتیب سانسوں کے درمیاں اسے پکار اٹھی تھی وہ جو اسکی قربت میں مدہوش ہوا جا رہا تھا حورین کی کانپتی آواز پر اپنا چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا
بولو جان مصطفیٰ میں تمہارے ان لبوں سے اپنے لئے محبت بھرے لفظ سننے کا منتظر ہوں
وہ نرمی سے اسکے نچلے لب کو سہلاتا ہوا بولا اور گہری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا جو شرم کی وجہ سے اسے دیکھنے سے گریز کر رہی تھی کیونکہ وہ اس وقت بغیر شرٹ کے تھا اور وہ خود اسکی شرٹ میں موجود تھی
"' مصطفی ٰ ۔۔۔۔ وہ۔ وہ۔ ۔مجھے بھوک لگی "'
وہ اپنا نچلا لب دباتی بمشکل بول پائی تھی کیونکہ وہ اسکو اپنی نظروں کے حصار میں لئے ہوئے تھا
کھا لینا جان مصطفیٰ پہلے تم میری بھوک کا علاج کر دو اسکے بعد
وہ معنی خیزی سے بولتا اسکے اوپر سے کمفرٹر کو ہٹانے لگا
"' اپکی بھوک کا علاج مطلب "
وہ ناسمھجی سے اسکو دیکھتی ہوئی بولی جبکہ اسکی معصومیت پر مصطفیٰ کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا
"' میری بھوک کا علاج ۔۔۔ مطلب یہ ""
وہ اسکے اوپر سے کمفرٹر کو مکمل ہٹا کر ایک بار پھر اسکے اوپر جھکا اور اپنے لب اسکی صراہی دار گردن پہ رکھ دئے تھے
وہ اسکی گردن پر جبجا اپنا لمس چھوڑتا رات والے موڈ میں آ چکا تھا
اسکی بڑھتی جسارتوں سے گھبرا کر حورین نے اسکے چھوڑے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنا چاہا مگر وہ اسکے نازک ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیکر باری باری اسکی نازک انگلیوں کو چومنے لگا اور ساتھ ہی اسکی ایک انگلی کو اپنے منہ نے لیکر اتنی زور سے دبایا کہ حورین کے منہ سے کراہ سی نکلی تھی
"" آپ ۔۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں نہ "'
وہ اپنی انگلی میں اٹھتی تکلیف کو محسوس کر کے اس بار اسکی طرف دیکھ کر بولی تھی جبکہ اسکی بات پر مصطفیٰ سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھنے لگا
رات سے اب تک تمھیں اندازہ نہیں ہوا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں
وہ اسکے اوپر جھکا دلچسپی سے اسکے چہرے کو دیکھتا اس سے سوال کر رہا تھا
اگر اتنی محبت کرتے ہیں تو پھر مجھے تکلیف کیوں دے رہے ہیں
وہ اپنی انگلی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی جس پر مصطفیٰ کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی
اگر تم پھر سے مجھے خود سے دور کرنے کی کوشش کروگی تو ایسی ہی تکلیفوں کو برداشت کرنا پڑے گا اسلئے میرے کام میں مجھے ڈسٹرب مت کرنا
اس بار وہ اسکی شہ رگ کو چومتا ایک بار پھر اسکے لبوں کو اپنا نشانہ بنا چکا تھا
''' مصطفیٰ پلیز جانے دیں ""
وہ اسکے لبوں پر جھکا اپنی تشنگی مٹانے لگا جب حورین کو اسکے ہاتھ اپنی شرٹ کے بٹنز کھولتے ہوئے محسوس ہوئے تو اس نے پھر سے احتجاج کیا جس پر وہ اسکی دونوں کلائی کو اپنی گرفت میں لیتا اسکی کوششوں کو ناکام بنا چکا تھا
"' چلی جانا تھوڑی دیر بعد "'
وہ اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھتا پھر سے خود کو سیراب کرنے لگا اس وقت وہ اسکی سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا
حورین نے ایک دو بار پھر سے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی پکڑ اس پر سخت کرتا پھر سے اسکو روک چکا تھا اب حور میں مزید ہمّت نہیں نہیں بچی تھی اسکو روکنے کی وہ خود کو اسکے سپرد کرکے اسکی شدتوں میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرنے لگی تھی
0 Comments
Thanks for feedback