Teri Yad Shakh e Ghualab Hai by Kanwal Akram Complete Novel Pdf Download


Online Urdu Novel Teri Yad Shakh e Ghual Hai by Kanwal Akram Social Romantic Based Urdu Novel Downloadable in Free Pdf Format and Online Reading Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.

بُرہان احمد! ابھی کک کے ابھی چچ چشمان کو طط طلاق دو۔" رضیہ بیگم نے سرد لہجے میں اٹک اٹک کر کہا تو سب کی سماعتوں پہ جیسے بم پھوٹا۔ 

امّی!" بُرہان درد بھری آواز میں اُنہیں پُکار کر رہ گیا تھا۔ ریحان نے بے بسی سے اُس کی دگرگوں ہوتی حالت کو دیکھا تھا۔ آنکھیں جو پہلے ہی سُرخ تھیں اب تو لہو چھلکانے لگیں تھیں۔ 

شائستہ بیگم خاموش تھیں۔ جو کُچھ آج اُنہیں پتہ چلا تھا اُس پر وہ چپپ ہو کر رہ گئیں تھیں۔ کیا کہتیں بُرہان نے تو کُچھ کہنے کو چھوڑا ہی نا تھا۔ آج اُنہیں سمجھ آیا تھا کہ اُن کی بیٹی کِس اذیّت سے گُزری تھی۔ باپ نے آخری سانسوں میں اُس کے روشن مستقبل کی خاطِر اُسے بُرہان کو سونپا تھا مگر وہی سہارا کھوکھلا نِکلا تھا۔  

بیگم! ہم گھر جا کر اِس مسلے پر بات کر سکتے ہیں۔ ابھی کیا ضرورت ہے؟" حماد صاحب نے سمجھانا چاہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے بچّوں کا گھر ٹوٹے۔ کہیں نا کہیں اُنہیں اُمید تھی کہ وہ مان جائے گی اور بُرہان سے علیحدہ نہیں ہو گی اِسی لیے اُنہوں نے اب تک طلاق کے پیپرز بھی نہیں بنوائے تھے۔ 

نہیں میں اا ابھی اِس کے مم منہ سے وہ تت تین بول سُننا چاہتی ہوں جج جو چشمان کی آزادی کا پپ پروانہ ہیں۔" رضیہ بیگم نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا تھا۔ بُرہان کی آنکھوں سے آنسو بہتے اُس کے گالوں کو بھگونے لگے تھے۔ وہ بے بسی کی عملی تصویر بنا کھڑا تھا۔ 

بابا کیوں لو (رو) لہے ہیں؟ کیا ہوا بابا؟ ماما بابا کو چُپ کلائیں (کرائیں) نا۔" شاہان نے بُرہان کے نم چہرے کو دیکھ کر اذہاد کے ہاتھوں سے جھُک کر چشمان کے کندھے کو چھوا تھا۔ 
کُچھ نہیں ہوا بیٹا! آو میں آپ کو آئس کریم کِھلا کر لاتا ہوں۔" اذہاد ریحان کے اِشارے پر اُسے لیتا باہِر نِکلتا چلا گیا تھا۔ 
امّی! پلیز ایسے مت کہیں۔ سب کُچھ بِگڑ جائے گا۔ آپ کو تو چشمان کو سمجھانا چاہیے اور اب آپ بھی اُسی کا ساتھ دے رہیں ہیں۔" ریحان نے رضیہ بیگم کے پاس بیٹھتے اُن کا ہاتھ تھاما تھا۔
یہ جو کُچھ کر چچ چُکا ہے اِس کک کے بدلے مم میں یہ بہت کک کم سزا ہے۔ یہ تو اِنسان کک کہلانے کے بھی للل لائق نہیں۔" رضیہ بیگم نے کپکپاتے لہجے میں کہا تھا۔ 
ایک آخری موقع دے دیں امّی! کبھی شِکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ کبھی اپنا گُناہ نہیں دُہراوں گا۔ ایک دفعہ معاف کر دیں بس۔" وہ اُن کے پیروں پہ ہاتھ رکھتا سر جُھکائے مِنّت کرنے لگا۔ چشمان خاموش بیٹھی تھی۔ نظریں کِسی غیر مرئی نُقطے پہ جمیں ہوئیں تھیں۔ 
افسوس ہہ ہوتا ہے کہ تُم میرے بب بیٹے ہو۔ نجانےِ کیا کمی رہ گگ گئی تھی مم میری تت تربیت میں جج جو تت تُم اِتنا بڑا گُناہ کر بیٹھے۔" رضیہ بیگم کی سانس اُکھڑنے لگی تھی۔ چشمان نے اُن کے ہاتھ سہلائے مگر اُن کی طبیعت بِگڑتی جا رہی تھی۔ 
ررر ریحان ڈاکٹر کو بُلاو جلدی۔" شائستہ بیگم نے ریحان سے کہا تو وہ باہِر کی جانِب بھاگا۔ شائستہ بیگم پریشان سی اُن کی صحت کے لیے دُعا کر رہیں تھیں۔ 
طط طلاق دد دو چچ چشمان کک کو۔ مم میری سس سانسیں اا اکھڑنے سس سے پہلے میری بب بچّی کو اپنے غغ غلیظ وجود سے آزاد کر دو۔
رضیہ بیگم اٹک اٹک جر بولتیں بُرہان کا دِل چیز گئیں تھیں۔ اُس نے اِلتجائی نظروں سے باپ اور چچی کو دیکھا مگر وہ نظریں چُرا گئے۔ چشمان نے بھی کوئی ردِعمل ظاہِر نا کیا۔ 
مم میں بُرہان احمد اا اپنے پپ پورے ہہ ہوش و حح حواس مم میں چچ چشمان تنویر کک کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" دِل پہ پتھر رکھتے وہ اپنی ماں کی خُواہش پوری کر رہا تھا۔

Post a Comment

0 Comments