Online Urdu Novel Kaif e Junoon by Haram Shah Rape Based Rude Possessive Hero Based, Arrange Marriage Based and Revenge Based Romantic Urdu Novel Downloadable in Free Pdf Format and Online Reading Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.
لگا تھا کہ وہ لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی جو فرزام خانزادہ کے دل میں اتر سکے لیکن تم تو صرف سانس لے کر ہی دل گھائل کر رہی ہو میرا جنون۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ مناہل کو کچھ سمجھ آتا فرزام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے بے انتہا قریب کھینچ لیا۔اپنے چہرے پر اسکی سانسوں کی مہک محسوس کرتے مناہل کا نازک وجود سوکھے پتے کی مانند تھرتھرانے لگا۔
اف میرے جنون یہ رات بہت بھاری گزرے گی تماری نازک جان پر۔۔۔۔۔
فرزام نے اس کے کپکپاتے ہونٹوں کو پر تپش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا لیکن تبھی اسکی نگاہ اپنے سینے پر رکھے مناہل کے حنائی ہاتھ پر پڑی جس میں اسکے بھائی کی پہنائی گئی انگوٹھی تھی۔فرزام اس دنیا میں سب سے زیادہ اپنے بھائی کو چاہتا تھا لیکن اپنی ملکیت پر کسی اور کی چھاپ دیکھنا اسے گوارا نہیں تھا پھر وہ چاہے اسکا بھائی ہی کیوں نہ ہوتا۔
فرزام نے نفرت سے وہ انگوٹھی اسکی انگلی سے نکال کر پھینک دی اور اسے گردن کے پیچھے سے جکڑ کر اپنے ہونٹوں کے قریب کر لیا۔
تمہاری منگنی بہرام سے ضرور ہوئی تھی لیکن اب تم میری ہو سنا تم نے صرف اور صرف فرزام خانزادہ کی ملکیت ہو تم من۔۔۔۔۔اور آج تم پر اپنا ہر حق جتا کر یہ ثابت کر دوں گا میں کہ تم صرف میری ہو ۔۔۔۔۔
فرزام اپنی دلہن کے حسین سراپے پر گرفت مظبوط کرتا شدت سے کہہ رہا تھا۔الفاظ سے جنون کی انتہا چھلک رہی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ ان کپکپاتے ہونٹوں پر اپنی مہر لگاتا اسے اندازہ ہوا کہ اسکی گرفت میں موجود وجود خوفزدہ تھا۔اس قدر خوفزدہ کہ وہ سانس بھی نہیں لے رہی تھی۔
"من؟ کیا ہوا میرے جنون؟"
فرزام نے نرمی سے اسکا گال پکڑ کر پوچھا لیکن اسکی بیوی خوف سے اچھل کر اس سے دور ہو گئی۔
نہیں مت چھوؤ مجھے مت ہاتھ لگاؤ۔۔۔۔نہیں پلیز دور رہو۔۔۔۔
وہ دیوار سے لگی خوف سے روتے ہوئے چلا رہی تھی اور فرزام اب حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔یہ ہر لڑکی جیسا انجان جزبات کا خوف نہیں تھا۔یہ خوف اس سے بڑھ کر تھا۔بات کو سمجھ کر فرزام مٹھیاں بھینچتے ہوئے اسکے قریب ہوا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
کیا ہوا تھا؟ بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟
مناہل اسکی سختی دیکھ کر مزید ڈر گئی پہلے تو اس نے سوچا کہ جھوٹ بول دے لیکن وہ اس کا شوہر تھا بھلا اس سے سچ چھپ سکتا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مناہل کا نازک دل خوف سے بند ہوا کہ سچ جان کر وہ کیا کر گزرے گا۔
مم ۔۔۔۔۔میں بارہ سال کی تھی۔۔۔۔۔انہوں نے میرے ساتھ۔۔۔فیض انکل نے مجھے میرے ہی روم میں بند کر دیا اور۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں بہت لڑی بہت چلائی لیکن۔۔۔۔
اس سے آگے مناہل سے کچھ نہیں بولا گیا تھا بس وہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی جبکہ اسکی بات کو سمجھ کر فرزام نے اپنا ہاتھ انتہائی زیادہ زور سے دیوار میں مارا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
مناہل کا ہر انکشاف سچ ثابت ہوا تھا۔ضدی سا فرزام خانزادہ جو اپنی سب سے پسندیدہ چیز کسی کے چھونے پر توڑ کر برباد کر دیتا تھا کسی اور کی چھوڑی ہوئی عورت کو کیسے قبول کرتا؟ وہ مناہل کی بربادی کا جان کر ہی اسے چھوڑ کر جا چکا تھا۔
0 Comments
Thanks for feedback