Ishq Nachaya Yar by Meem Ain Novel Complete Pdf Download

Ishq Nachaya Yar by Meem Ain Novel

Ishq Nachaya Yar by Meem Ain.

Online Urdu Novel in Pdf Ishq Nachaya Yar by Meem Ain Pdf Novel based on Age Difference, Blind Girl, Vani Based and Forced Marriage Based Free Download Urdu Novels and Urdu Novels Online Reading. Free Pdf Download Urdu Novels Ishq Nachaya Yar Complete Pdf Posted on Novel Bank.

یہ بلوچستان کے ایک گاؤں خضدار کے ایک بڑے میدان کا منظر تھا جہاں برگد کے قدیم اور قد آور درخت کے نیچے اس وقت چودھریوں اور بلوچیوں کے درمیان ہونے والے گھمبیر تنازعے پر پنچائیت بیٹھی ہوئی تھی۔ 

درخت کے عين نیچے بچھے مرکزی تخت پر پنچائیت کے معزز سربراہ مولانا عبدالحق صاحب جو کہ ایک مولانا بھی تھے، سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ دھرے چہرے پر انتہائی سنجیدہ تاثرات سجائے بیٹھے تھے۔

ان کے ساتھ ہی گاؤں کے دو اور معزز اور معمر افراد براجمان تھے۔ ان کی دائیں جانب بلوچ جب کہ بائیں جانب چودھری خاندان موجود تھا۔ چودھریوں کے چہروں پر ہراس و خوف صاف واضح تھا جب کہ بلوچوں کے چہرے ضبط سے سرخ پڑ رہے تھے۔ مولانا عبدالحق نے گلا کھنگارتے بات کا آغاز کیا۔

جیسا کہ صاف واضح ہے کہ چودھری انور کے بیٹے چودھری فائق کی بندوق سے سردار ارقم بلوچ کے چھوٹے بیٹے مرزا افگن بلوچ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا۔ وہاں موجود دو گواہوں کی گواہی کے بعد چودھری فائق نے خود بھی تسلیم کیا کہ اس نے ہی یہ قتل کیا ہے۔ یہ پنچائیت مرزا افگن بلوچ کے اہل خانہ کو اجازت دیتی ہے کہ وہ قصاص طلب کریں۔

پنچائیت کا فیصلہ سنتے ہی چودھریوں کے رنگ اڑے تھے۔
میں اپنے بیٹے کے گناہ کے بدلے اپنی ساری زمین بلوچوں کے نام کرنے کو تیار ہوں۔

چودھری انور کی بات سنتے ہی سردار ارقم بلوچ کا بڑا بیٹا مرزا اورهان بلوچ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچنے سے سرخ و سفید ہاتھ پر نیلی رگیں تن گئی تھیں۔ سردار ارقم نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا اور آنکھ کے اشارے سے اسے تحمل سے کام لینے کا اشارہ کیا۔

میرا جان سے عزیز بھائی قتل ہوا ہے۔ مرزا افگن بلوچ کا بھائی اور بلوچ قبیلے کے ہونے والے سردار کی حیثیت اور جرگے کے مطابق مجھے پورا حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق مانگ کر سکوں اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ۔۔۔۔

پنچائیت میں موجود ہر شخص سانس روکے اس کی بات سن رہا تھا۔ بلا شبہ مرزا اورهان بلوچ اپنے الفاظ اور انداز سے ہی کسی کا بھی سانس روکنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سب سانس روکے اس کے فیصلے کے منتظر تھے۔ جرگے میں اس وقت موت کا سماں تھا۔

Post a Comment

0 Comments